مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

کمالِ حُسن نے آ کر مرا طواف کیا


چلا جو بزم میں دورِ ثنائے سرورِ دیں

تو خوشبوئوں نے بھی ماحول کا طواف کیا


اُنہیں کو ڈھونڈا نظر نے فضائے مکہ میں

میری نگاہوں نے سب سے جدا طواف کیا


نگاہ پڑتے ہی روضے پہ قلبِ پر غم نے

اگر طواف کیا تو بجا طواف کیا


ملی جو خاکِ مدینہ تو سامنے رکھ کر

عدد کی قید سے نکلا، بڑا طواف کیا


ترے گدا نے مسرت سے رقص کرتے ہوئے

تری عطائوں کو دے کر دعا طواف کیا


ہوائے لطف نے پا کر ترے اشارے کو

بروزِ حشر مرا بے بہا طواف کیا


خیالِ حُسنِ نبی کا دلِ تبسم نے

کسی کو کچھ بھی بتائے بِنا طواف کیا

دیگر کلام

کیوں پھرتی ہے کھولے ہوئے بالوں کو بھلا شام

کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات

ان کی چوکھٹ پہ جھکانا ہے جبینِ دل کو

نعت کیا لکھوں؟ تخیل ورطۂ حیرت میں ہے

غمِ زمانہ جو دل سے بنا کے بیٹھ گیا

تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

کرم کی روئیداد آپ ہیں

اگر نہ تیری فقیری اے تاجدار کرے

تاجور اُس کی زیارت کی دعا کرتے ہیں

جس کو اپنا رخِ زیبا وہ دکھا دیتے ہیں