ملے ‘ جو مجھ سے کوئی برہمی سے ملتا ہے
گدائے طیبہ تو مجھ سے خوشی سے ملتا ہے
میں اس امید پہ آنکھیں بُجھائے بیٹھا ہوں
کہ روشنی کا پتہ تیرگی سے ملتا ہے
شعور زیست کتابوں میں ڈھونڈنے والو
شعورِ زیست تو عشقِ نبی ﷺ سے ملتا ہے
جسے خلوصِ عقیدت کا نام دیتے ہو
وہ خود روی سے نہیں ‘ پیروی سے ملتا ہے
وہ جانتا ہے تقلیدِ مصطفیٰ ﷺ کیا ہے
جو دوستوں کی طرح اجنبی سے ملتا ہے
اس آدمی کے مراتب بشر کو کیا معلوم
خدا بھی عرش پہ جس آدمی سے ملتا ہے
نقوش پائے محمد ﷺ ہوں جس گلی کو نصیب
سراغِ عظمتِ آدم اِسی سے ملتا ہے
وہ راستہ جو پہنچتا ہے عرش و کرسی تک
براہِ کعبہ انہیں کی گلی سے ملتا ہے
غزل سرائی سے اقبال وہ کہاں حاصل
سرور و کیف جو ذکرِ نبی ﷺ سے ملتا ہے