مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے
ان کی تخلیق کا رمز ان کا خدا ہی جانے
بو لہب نے تو فقط ان کا سراپا دیکھا
دیو کا بندہ نبی کو بھلا کیونکر مانے
ہم تو محشر میں کہیں کے بھی نہ رہتے واللہ
رکھ دیا ہاتھ شفاعت کا شہِ بطحا نے
عشقِ احمد نہ ہو دل میں تو عبادت ہے فضول
لاکھ پھیرا کرو تسبیح کے سوؤں دانے
فاتحہ نام سے دیوبندی بہت چڑتا ہے
پر پہنچ جاتا ہے شبرات کا حلوہ کھانے
غوثِ اعظم کے بھروسے پہ ہیں رن میں اترے
ہے کوئی آئے جو ہم مردوں سے سر ٹکرانے
آیا اسلام مساوات کا پیغام لیے
نئے سر سے سجے تہذیب کے تانے بانے
در بدر ٹھوکریں کھانے سے نہ کچھ حاصل ہو
پیر میرا مجھے کافی ہے یہ جانے مانے
نظمی اُوسر میں کھلاتا ہے عقیدت کے گلاب
بیٹھے ہیں دانتوں تلے انگلی لیے فرزانے