نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے
مرے آقاؐ مجھے بس نعت خواں کہہ کر پکاریں گے
بہ فیضِ مصطفیٰؐ ہوگی فرشتوں میں پذیرائی
میں ذرّہ ہوں مگر وہ آسماں کہہ کر پکاریں گے
قدم رکھوں گا نامعلوم وادی میں تو وہ مجھ کو
غلامِ خواجہءِ کون و مکاں کہہ کر پکاریں گے
صحابہ سے جو نسبت ہے مجھے اُس کے طفیل آقاؐ
فقیر کوچۂِ فردوسیاں کہہ کر پکاریں گے
کنارے پر جو پہنچے گی سمندر چیر کر آخر
اُسی کشتی کا مجھ کو بادباں کہہ کر پکاریں گے
پگھلتے جارہے ہوں گے بدن جب خوف سے انجؔم
مجھے وہ شاعری کا سائباں کہہ کر پکاریں گے