نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے
غرض ہم کو جمالِ یار کی جلوہ گری سے ہے
کسی کو ساری دنیا میں کہاں اتنی کسی سے ہے ؟
رسول پاک کو جتنی محبت امتی سے ہے
مقلّد حضرت حسان کا ہوں فقہِ شِعری میں
’’مری پہچان بس نعت رسول ہاشمی سے ہے‘‘
مدد فرما اے نعلِ فاتحِ بدر و احد ! میری
کہ خود پِس جائے جو دشمن کا لشکر دانت پیسے ہے
ثنا تصویر کی مدح مصور ہے حقیقت میں
لہٰذا نعتِ احمد حمدِ خلاقِ غنی سے ہے
ظہورِ جاہ و حشمت ہو تو رب جانے ہو کیا عالم ؟
بقیدِ رعب جب عالم تمہاری سادگی سے ہے
تجلیِ صفاتی کا محل یونہی نہیں زاہد !
شرف یہ طور کو حاصل کمالِ عاجزی سے ہے
سفالت خو ہے خود گرچہ مگر خامہ معظم کا
عُلو آثار ہو کیونکر نہ ،جب نسبت علی سے ہے