نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا
ترا ہر بول کوثر میں دُھلا تھا
تری گہری حسیںِ آنکھوں میں گویا
طلوعِ صبح کا موسم رُکا تھا
نجانے کیسا منظر ہوگا جب تُو
امام الانبیاء بن کر کھڑا تھا
تُو اُمّی تھا مگر تیری جبیں پر
رسولِ اوّل و آخر لکھا تھا
ترا ہر ایک لمحہ زندگی کا
نجانے کتنی صدیوں سے بڑا تھا
تُو سب کے واسطے شہرِ محبت
تجھے سب کے لیے بھیجا گیا تھا