پیشانی سے چوموں گا سنگِ درِ جانانہ
دنیا یہی سمجھے گی دیوانہ ہے دیوانہ
خُرمے کی چٹائی نے تن پر ہیں نشاں چھوڑے
سرکارِ دو عالم ہیں، انداز فقیرانہ
رحمت ہیں دو عالم کی بے کس کے وہ یاور ہیں
برسے ہے کرم ان کا اپنا ہو یا بیگانہ
خالق کی عطا سے وہ مالک ہیں خدائی کے
محبوب کی کرسی پر بیٹھے ہیں وہ شاہانہ
ہیں پیٹ پہ سِل باندھے، پیوند ہیں کپڑوں میں
مختارِ دو عالم ہیں، رہتے ہیں غریبانہ
خطبہ پڑھا نبیوں نے اس ذاتِ گرامی کا
جبریل مَلیں ماتھا قدموں پہ غلامانہ
وہ نورِ مجسم ہیں، سب نور انہی کا ہے
ہیں شمع مرے آقا، مخلوق ہے پروانہ
پوروں سے بہیں چشمے اور پیڑ کریں سجدے
ہیں یوں تو بشر آقا، اوصاف جداگانہ
کوثر دیا کثرت دی اللہ نے رفعت دی
خود اپنی زیارت دی، باوصف کریمانہ
ہم عاصی عادی ہیں بد بختی ہماری ہے
وہ عفو و کرم والے، یہ شان رحیمانہ
مارہرہ میں ملتی ہے بغدادی و اجمیری
دو آتشہ چھنتی ہے ایسا ہے یہ میخانہ
نظمی ترے شعروں میں بیدم کی جھلک پائی
مضمون میں ندرت ہے، انداز جداگانہ
میزان پہ محشر میں سرکار یہ فرمادیں
نظمی مرا مستانہ، نظمی مرا مستانہ