پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال
لکھنے بیٹھوں جو کمالاتِ پیمبر کاغذ
مدحتِ نورِ مجسم سے منور کاغذ
ہو گیا لفظ کے پھولوں سے معطر کاغذ
جس میں نعتِ شہِ ابرارلکھی ہیں میں نے
کاش وہ نذر کروں شاہ کے در پر کاغذ
اس میں قرآن کی آیات بھی ہیں نعتیں بھی
کیوں نہ ہو اپنے مقدر کا سکندر کاغذ
جس پہ لکّھا ہو حضوری کا اجازت نامہ
کاش لے آئے وہ طیبہ سے کبوتر کاغذ
پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال
لکھنے بیٹھوں جو کمالاتِ پیمبر کاغذ
کیا عجب ہے جو لکھوں نامِ نبی پڑھ کے درود
روشنائی مہک اُٹّھے ہو منور کاغذ
احترام اُس کا بھی لازم ہے شفیقِؔ عاصی
تجھ کو سادہ بھی جو مل جائے زمیں پر کاغذ