پہنچ گیا جو تمہارے در پر ، کہوں گا تم سے سلام سائیں
جو رہ گیا تو یہیں سے بھیجیں گے میرے آنسو، پیام سائیں
تمہارے ہاتھوں میں دے دیا ہے خدا نے سارا نظام سائیں
کوئی تو کر دو میرے بھی آنے کا در پہ اب اہتمام سائیں
عجیب لذّت ہے جو پکاروں میں اپنے آقا کا نام سائیں
جو سُن لے وہ خوش ہوئے ، بنا دیں گے میرے سب بگڑے کام سائیں
ہزار ہیں نام آپ کے جو فصیح کوئی ، بلیغ کوئی
میں اتنا لکھا پڑھا کہاں ہوں قبول کر لو یہ نام سائیں
بھٹائی کی اس میں آبرو ہے تو اس میں سہون کا رنگ و بو ہے
تمہارے نام کی بدولت ہیں وقت کے یہ امام سائیں
میں حاضری کو ترس رہا ہوں نہ جانے کب سے تڑپ رہا ہوں
یہ ہجر میں کیسے دن کٹے گا یہ کیسے گزرے گی شام سائیں
یہاں بھی تم ہی نے ہے سنبھالا ہر اِک مصیبت کو تم نے ٹالا
ہمارا ایماں ہے روزِ محشر وہاں بھی آؤ گے کام سائیں
تمہیں سے ہم نے قرآن پایا تمہی نے حق سے ہمیں ملایا
جہاں میں جس کو بھی جو مِلا ہے دیا تمہیں نے تمام سائیں
ہزار حوریں ، فرشتے لاکھوں ، تھے با ادب محوِ دید اس دم
چلے سُوئے عرش جب زمیں سے وہ میرے مستِ خرام سائیں
کبھی تو سائیں ادیبؔ کو بھی یہ حکم دیں گے کہ در پہ آجا
کبھی تو آئے گا اور سنائے گا اپنا تازہ کلام سائیں