قطارِ اشک مری ہر اُمنگ بھول گئی
کمال ضبط کا ، پلکوں کا سنگ بھول گئی
زمیں پہ عرصۂ معراج تھا بڑا مشکل
حیات سانس بھی لینے کا ڈھنگ بھول گئی
پیا ہے جب سے سماعت نے انگبینِ ثنا
ہر ایک ساز ہر اک جلترنگ بھول گئی
زمیں نے اوڑھ لیا رنگِ گنبدِ خضریٰ
زمین اِس کے سوا سارے رنگ بھول گئی
نظر نے سوچا تھا مانگے گی اُن سے خلدِ بریں
مدینہ دیکھا، ہوئی ایسی دنگ بھول گئی
گئی ہے تنہا مری روح جانبِ بطحا
وہ میرے جسم کا ہر ایک انگ بھول گئی
پرائی ریت بھی کربل میں اشکبار ہوئی
وفورِ درد سے لمحوں میں جنگ بھول گئی