قربِ حق کا پتہ چاہیے
زندگی کا مزہ چاہیے
مال و زر کی نہیں کچھ طلب
بس نبی کی عطا چاہیے
سر پہ رکھنے کو اے مصطفیٰ
آپ کا نقشِ پا چاہیے
ہر مَرض سے ملے گی شفا
وردِ صلِّ علیٰ چاہیے
بحرِ غم میں ہے کشتی پھنسی
اک نظر ناخدا چاہیے
باغِ جنت کی خواہش نہیں
بس نبی کی عطا چاہیے
رنج کی اس کڑی دھوپ میں
ظِلّ زُلفِ دوتا چاہیے
یا نبی، یا نبی، یا نبی
دردِ دل کی دوا چاہیے
دہر میں، قبر میں حشر میں
آپ کا آسرا چاہیے
نعت گوئی کی دولت ملے
فکر و فن کی ردا چاہیے
دیدہ و دل کی بینائی کو
سرمہ”مازاغ“ کا چاہیے
دل کی بنجر زمیں ہو ہری
اب کرم کی گھٹا چاہیے
میرے دل کی شبستان میں
الفتوں کی ضیا چاہیے
تیرے احمدؔ کو اے مصطفیٰ
کلکِ احمدؔ رضا چاہیے