ربِ کونین! ترے نام پہ جھکنا آیا
شاہِؐ دارین کے پیغام پہ جھکنا آیا
سر اٹھانے کا سلیقہ جو نبیؐ نے بخشا
اپنے مالک کے ہے احکام پہ جھکنا آیا
لمسِ قدمینِ پیمبرؐ کی ہے خوشبو جس میں
ایسے ہر نقش پہ ہر گام پہ جھکنا آیا
ان کی دہلیز ، مواجہ کہ سنہری جالی
جملہ انوار کی اقسام پہ جھکنا آیا
کالی کملی میں جو ملبوس حرم کو دیکھا
محرمِ شاہؐ کے احرام پہ جھکنا آیا
دہر میں دیں کو سرافراز وہی ہیں کرتے
جن کو اسلام کے اکرام پہ جھکنا آیا
علم کا شہر وہی امّی لقب ہے طاہرؔ
سامنے جس کے ہے اکلام کو جھکنا آیا