سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

دل تھا ساجد نَجْدِیا پھر تجھ کو کیا


بیٹھتے اُٹھتے مدد کے واسطے

یا رسول اللہ کہا پھر تجھ کو کیا


یا غَرض سے چھٹ کے محض ذکر کو

نامِ پاک اُن کا جپا پھر تجھ کو کیا


بے خودی میں سجدۂ در یا طواف

جو کیا اچھا کیا پھر تجھ کو کیا


ان کو تَمْلِیک مَلِیْکُ الْمُلْکْ سے

مالکِ عالَم کہا پھر تجھ کو کیا


ان کے نامِ پاک پر دل جان و مال

نَجْدِیا سب تج دیا پھر تجھ کو کیا


یٰعِبَادِی کہہ کے ہم کو شاہ نے

اپنا بندہ کر لیا پھر تجھ کو کیا


دیو کے بندوں سے کب ہے یہ خطاب

تو نہ اُن کا ہے نہ تھا پھر تجھ کو کیا


لَا یَعُوْدُوْنْ آگے ہو گا بھی نہیں

تو الگ ہے دائما پھر تجھ کو کیا


دشتِ گِرد و پیشِ طَیبہ کا ادب

مکہ سا تھا یا سِوا پھر تجھ کو کیا


نَجدی مرتا ہے کہ کیوں تعظیم کی

یہ ہمارا دین تھا پھر تجھ کو کیا


دیو تجھ سے خوش ہے پھر ہم کیاکریں

ہم سے راضی ہے خدا پھر تجھ کو کیا


دیو کے بندوں سے ہم کو کیا غرض

ہم ہیں عبدِ مُصطَفیٰ پھر تجھ کو کیا


تیری دوزخ سے تو کچھ چھینا نہیں

خُلد میں پہنچا رضاؔ پھر تجھ کو کیا

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے

سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے

سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے

سچی بات سکھاتے یہ ہیں

شکر خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے

قافلے نے سُوئے طیبہ کمر آرائی کی

عرشِ حق ہے مسندِ رِفعت رسول اللہ کی

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

غم ہو گئے بے شمار آقا