سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں
پلکوں پہ عقیدت کی ساری مَیں شمعیں جلا کر کیا مانگوں
آغوشِ دوعالم کے اندر جب ہے ہی نہیں تو میں اُن سے
روضے کی زیارت سے بڑھ کر یا اس کے برابر کیا مانگوں
دارین کے رہبر سے مَیں نے صرف اُن کی محبت مانگی ہے
اس چیز سے بہتر کیا سوچوں اِس چیز سے بہتر کیا مانگوں
اُس شہر کا اِک اِک ذرّہ ہی جب سُرمہ ہے اپنی آنکھوں کا
اُس شہر سے پہلے کیا چاہوں اُس شہر میں جا کر کیا مانگوں
تو میرے تصوّر سے بڑھ کر ہے رحم کا پیکر میں تجھ سے
اے میری دعاؤں کے مرکز اے میرے پیمبر ! کیا مانگوں
دامن کو مَیں کتنا پھیلاؤں تحصیلِ عنایت کی خاطر
ہر قطرہ سمندر ہو جن کا مَیں اُن سے سمندر کیا مانگوں
نعلین کا بوسہ مانگا ہے ہونٹوں کے تبسم کی خاطر
کونین کے والی سے انجؔم کونین سے کم تر کیا مانگوں