سیّد انس و جاں کا کرم ہوگیا
دور سر سے مرے بارِ غم ہوگیا
میں کہ تھا منتشر جادہء زیست پر
آپؐ کی اک نگہ سے بہم ہو گیا
وہ تبسم فشاں لب جو یاد آگئے
مندمل زخمِ تیغِ الم ہوگیا
اسمِ سرکارؐ ہونٹوں پہ آیا مرے
آنکھ پُر نم ہوئی سر بھی خم ہوگیا
سیلِ اشکِ ندامت میں وہ زور تھا
دفترِ معصیت کالعدم ہوگیا
لغزشوں پر مری چشمِ رحمت ہوئی
جادہء حق میں ثابت قدم ہوگیا
خطبہ آخریں وہ لب دا ہوئے
اور منشورِ عالم رقم ہوگیا
دُور تائب کے دل سے ہوں آلائشیں
پاک جیسے بتوں سے حرم ہوگیا