ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں
ستارہ بن کے تری شام سے لپٹ جاؤں
ترے قفس میں تڑپنا ہے میری آزادی
میں آپ چل کے ترے دام سے لپٹ جاؤں
ادب ہے رہ میں رکاوٹ وگرنہ دل چاہے
میں آگے بڑھ کے ترے جام سے لپٹ جاؤں
میں تیرے شہر کے منظر اُٹھالوں پلکوں پر
میں دھوپ بن کے درو بام سے لپٹ جاؤں
کھلا ہے دل میں جو یادوں کا اِک دریچہ سا
میں اُس دریچۂ بے نام سے لپٹ جاؤں