ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی
دو جہاں کو دینے آیا دو جہاں کی روشنی
اوڑھ کر نکلا بدن پر سچ کے سجدوں کا لباس
دے گیا محراب و منبر کو زباں کی روشنی
اُس کی آنکھوں میں گھلی ہے اُس کے باطن کی مٹھاس
جس طرح مسجد کے گنبد میں اذاں کی روشنی
لوحِ دل پر لکھ دیا ہے اُس کا اسمِ لازوال
لامکاں کو بخش دی ہے لامکاں کی روشنی
اُس کی رحمت کا اگر ہر شخص پر سایہ نہ ہو
پھر کہاں کی کہکشائیں پھر کہاں کی روشنی
اُس کے آنے سے چمک اٹھا ہے ہر شے کا مزاج
انجؔم اُس کے ساتھ اُتری آسماں کی روشنی