وصال کی جو دلوں میں رہتی ہیں غاریں روشن
تو ہجر میں اُن کو زندہ رکھتی ہیں آہیں روشن
ہے اُن کی سیرت ، ہماری خاطر نشانِ منزل
کہ کر رہی ہے جو اہلِ ایماں کی راہیں روشن
اُنہی کے رُخ کی ضیا سے چمکا ہے دن کا چہرہ
اُنہی کی زلفوں سے ہو رہی ہیں یہ راتیں روشن
نظر نے چوما ہے جب سے پیارے نبی کا روضہ
سو تب سے رہنے لگی ہیں اپنی نگاہیں روشن
یہ خاکِ طیبہ بنا کے دیکھو نظر کا سُرمہ
یقیں ہے مُجھ کو سدا رہیں گی یہ آنکھیں روشن
ہیں صُبحیں روشن حضورِ اکرم کے دم قدم سے
ہمیں یقیں ہے اُنہی کے دم سے ہیں شامیں روشن
جلیل ، اُن کے دہن کی باتوں کا یہ ثمر ہے
کہ آج بزمِ سخن میں ہوتی ہیں باتیں روشن