وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے
اُس چاند کی اُجلی بستی میں پُر نور ستارے تھے کتنے
طیبہ کے مکانوں پر کیسی انوار کی بارش ہوتی تھی
ہر ایک مکاں کے رستے میں جنت کے نظارے تھے کتنے
اُس شاہِ دو عالم کے آگے جو شخص بھی آیا ہار گیا
اب فرداً فرداً کیا کہیئے اُس جنگ میں ہارے تھے کتنے
فاران کی اونچی چوٹی سے یا غارِ حرا سے پوچھیں تو
انوار کی ندیاں کیسی تھیں اور نور کے دھارے تھے کتنے
پتھر کی زمینوں پر انجؔم سرکارِ دو عالم نے آکر
صدیوں سے جو اب تک قائم ہیں وہ نقش اُبھارے تھے کتنے