وہ دن آئیں کبھی ہم بھی بنیں مہماں مدینے میں
رہیں پھر عُمر بھر مولا ! بہ جسم و جاں مدینے میں
اگرچہ جی رہا ہوں میں، مگر یہ زندگی کیا ہے
کہ میں تو ہوں یہاں لیکن مرے جاناں مدینے میں
مدینے کی فضا مولا ! عطا کر اہلِ ایماں کو
کہ روحیں اہلِ ایماں کی رہیں شاداں مدینے میں
یہ دربارِ مُحمّد ہے ، کُھلے ہیں در خزانوں کے
گدا بن کر کے آتے ہیں سبھی سلطاں مدینے میں
رہِ عشق و محبّت میں غموں کی وادیاں بھی ہیں
سہارا دے کے لے چل تُو ،مُجھے اے جاں ! مدینے میں
مدینے میں جو موت آئے ، بھلا ہے دین و دُنیا کا
سو مرنا ہو تو پھر جا کر مرے اِنساں مدینے میں
دلِ مُضطر کی خواہش ہے کبھی تو زندگانی میں
ملے ہم سے فقیروں کو ، مہِ رمضاں مدینے میں
نہیں لگتا مرے مولا! وطن میں دل مرا ،کیونکہ
یہاں تو جسمِ خاکی ہے ، مری ہے جاں مدینے میں
مدینے کے مکینوں کو جو دیکھیں ،رشک آتا ہے
کہ وہ پھرتے ہیں گلیوں میں بڑے نازاں مدینے میں
جلیل اک کوٹھڑی مجھ کو مدینے میں عطا ہو گر
تو گُزرے زندگانی شاداں و فرحاں مدینے میں