وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے
اک آئینے میں جیسے آئینہ گم ہو کے رہ جائے
وہ اپنی بند پلکوں کو ذرا کھولے تو آنکھوں میں
زمیں سے عرش تک کا فاصلہ گم ہو کے رہ جائے
اگر وہ روک لے بے داغ زندہ روشنی اَپنی
ہر اک شے صورتِ حرفِ دُعا گم ہو کے رہ جائے
اُسی کی رہبری سے کام چلتا ہے زمانے کا
وگرنہ ہر جگہ ہر قافلہ گم ہو کے رہ جائے
وہیں سے بالیقیں ہوتی ہے انجؔم ابتدا اُس کی
جہاں آفاقیت کی انتہا گم ہو کے رہ جائے