وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں
اٹھائیے کہ نظر کو ہے میکشی کا شوق
خدا کا شکر ہوا پورا حاضری کا شوق
جبینِ دل کو تھا کب سے درِ نبی کا شوق
نہ سروری سے ہے مطلب نہ خسروی کا شوق
اگر ہے شوق تو خاکِ درِ نبی کا شوق
نہیں ہے دل میں اگر مدحتِ نبی کا شوق
فضول شہرِ سخن میں ہے شاعری کا شوق
اِدھر اُدھر کا نہیں ہے کہیں کسی کا شوق
درِ حضور پہ مرکر ہے زندگی کا شوق
وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں
اٹھا ئیے کہ نظر کو ہے میکشی کا شوق
مچلتا رہتا ہے دل کے غریب خانے میں
نبی کے شہر میں چھوٹی سی جھوپڑی کا شوق
اشارہ شاہِ امم کا ملا شفیقؔ اُدھر
اِدھر چلا مجھے لے کر درِ نبی کا شوق