یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے
جو کچھ بھی سوا آپ کے ہے کچھ بھی نہیں ہے
فرصت سے جسے بیٹھ کے افلاک بھی سوچیں
ہاں ہاں وہ مدینے کی پرانوار زمیں ہے
عنوانِ جہاں میرے شنہشاہ سا اِک بھی
سرنامہِ عالم میں دکھاؤ جو کہیں ہے
تاریخ کے لہجے میں مٹھاس آپ کے دم سے
اور کل کا مقدر بھی ترے زیرِ نگیں ہے
یہ راز حسینوں کا عیاں کردہ ہے لوگو
دنیا بھی حسِیں تب ہے کہ وہ ذات حسیں ہے
عشاق کی خوش ذوق نگاہوں کیلئے ہی
دریوزہ گری کرتی یہاں خلدِ بریں ہے
بخشا ہے تبسم کو یہاں اذن ثناء کا
سرکار کے شکرانے کو سجدے میں جبیں ہے