یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق
یہ کس کے نور سے چمک دمک رہے شفق شفق
یہ کس نے مردہ قوم کو بشارتِ حیات دی
یہ کس نے تر کیا ہے زندگی کا خشک تر حلق
وہ مصطفی وہ مجتبیٰ، وہی حبیبِ کبریا
کہ جن کے اتباع کا رسولوں کو ملا سبق
انہی کے نور کی شناخت ہیں زمین و آسماں
انہی کی ذات کا ظہور مہر و ماہ فلق فلق
خدائی ساری نظمی ان کے نام پر فدا ہوئی
انہی کے در کی بھیک پر ہے منحصر خَلَق خَلَق