یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے
دوڑتے تھے، کبھی سنبھلتے تھے
جب چلا قافلہ سوئے طیبہ
آگے آگے چراغ جلتے تھے
جیسے پہلے نہ تھے کبھی وہ سنگ
سنگ شیشے میں ایسے ڈھلتے تھے
ایک سیلابِ نور آتا تھا
جب ستارے فلک پہ ڈھلتے تھے
زندگانی تجھے برتنے کے
روز پہلو نئے نکلتے تھے