زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

شہادر پر ترے آئے ہوئے ہیں


کرم کی بھیک ہے سب کی تمنا

سوالی ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں


عمل کا کوئی سرمایہ نہیں ہے

جھکی نظریں ہیں، شرمائے ہوئے ہیں


ندامت سے لرزتے چند آنسو

یہ نذرانہ ہے جو لائے ہوئے ہیں


انہی کا ہوگیا سارا زمانہ

جنہیں سرکار اپنائے ہوئے ہیں


کھلے ہوں پھول جب اشکوں کے ہر سو

سمجھ لیجئے کہ آپؐ آئے ہوئے ہیں


ظہوریؔ وہ سخن کی داد دیں گے

جگر پر چوٹ جو کھائے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

جمالِ گنبد ِ خضریٰ عجیب ہوتا ہے

بنا ہے بگڑا ہوا کام یا رسول ؐاللہ

پیکرِ دلربا بن کے آیا ، روحِ ارض و سما بن کے آیا

کرم ہو نگاہِ کرم میرے آقاؐ

مختصر سی مری کہانی ہے

جب گرے، کوئی نہ آیا تھامنے

پھر ابر کرم برسا رحمت کی گھٹا چھائی

تیری گلیوں پہ ہو رہی ہے نثار

ذرہ قدموں کا ترے چاند ستارے جیسا

منزل کا نشاں ان کے قدموں کے نشاں ٹھہرے