.ذکر سرکار، دو عالم سے سوا رکھا ہے

ذکر سرکار، دو عالم سے سوا رکھا ہے

یہ طریق اہلِ محبت نے روا رکھا ہے


آپ کے نام سے مقبول ہے کاوش میری

ورنہ میں کیا مرے اشعار میں کیا رکھا ہے


قدمِ صاحب معراج نے بخشا ہے عروج

ورنہ سچ پوچھو تو کونین میں کیا رکھا ہے


ارضِ طیبہ کا تصوّر ہے سبق جینے کا

حق نے مٹی میں بھی کیا رازِ شفا رکھا ہے


از ازل تا بہ ابد جو بھی جہاں ہے جو کچھ

حق نے سب کچھ انہیں قدموں پہ جھکا رکھا ہے


حاضرئ حرمِ کعبہ کا میں اہل نہیں

میں نے کعبہ درِ اقدس کو بنا رکھا ہے


مل ہی جائے گی کسی روز بصیرت مجھ کو

میں نے کچھ ذرّوں کو آنکھوں سے لگا رکھا ہے


کرمِ سیّدِ کونین کو کیا کہیے صبیح

درد کا نام محبت نے دوا رکھا ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

آج کل پرسوں کبھی ہو جائے گی

اس طرح جانِ دو عالم ہے دل و جان کے ساتھ

.آپ خیر الانام صاحب جی

آرزو قلبِ مضطر کی یارو

لکھے تھے کبھی نعت کے اشعار بہت سے

حُسن مُطلق کے لیے ذاتِ گرامی چاہیے

بڑھ گیا حدِ جنوں سے نام لیوا آپ کا

آنکھوں نے جہاں خاک اُڑائی ترے در کی

قدرتِ حق کا شہکارِ قدرت اک نظر

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے