اِسلامی کانفرنس

اخوّتِ دیں کے گیت گاتے مسافر انِ حرم چلے ہیں

چراغِ اسلام ، تیز جھونکوں میں جگمگانے کو ہم چلے ہیں


خُدا کے ملکوں کی سرحدوں کا مِلاپ ، لشکر بنا ہُوا ہے

الگ الگ ندّیوں کا پانی اب اِک سمندر بنا ہُوا ہے


سُنا ر ہی ہے ہر آنے والی گھڑی نویدِ ثبات ہم کو

ہمارے اَسلاف کی زمینوں میں بو رہی ہے حیات ہم کو


مَیں اور بھی کچھ رفیق آنکھیں شریکِ حدِّ نگاہ دیکھوں

پناہ میں رحمتِ دو عالم کی ، سارے عالم پناہ دیکھوں


دِلوں میں قرآن رکھنے والے اب ایک صَف میں کھڑے ہوئے ہیں

کچھ اَور بازُو بھی تیرے شانوں پہ زندگی اب جڑے ہوئے ہیں


شعور و بِینائی کے اصُولوں میں نیک ترمیم ہو رہی ہے

ہر اِک نظر اِجتماع کے فائدوں میں تقسیم ہو رہی ہے


اب اپنی تقدیر اپنی تارِیخ اپنا کردار ہم بنے ہیں

رسُول کا ہاتھ ہم بنے ہیں خُدا کی تلوار ہم بنے ہیں


شگافٗ باطل کے کو ہساروں میں حق کے پیغام ہی سے ہو گا

ہر اِک مُسلمان کا سر اُونچا ، فرازِ اِسلام ہی سے ہو گا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

سجنوں آیا اے ماہِ رمضان

خوفِ گنہ میں مجرم ہے آب آب کیسا

صورت مت بھولنا پیا ہماری

متفرق اشعار

مبارک فضل بھائی کو عجب ہی نورچھایاہے

(بچوں کے لِیےایک نظم) سچّائی

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

نہ میں شاعر نہ شاعر کی نوا ہوں

نشانِ کارواں بھی ہوگئے گُم

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے