ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :
میرے اندر بھی تو گلزار اُگانے کی اُمنگیں ہیں
جو پوری نہیں ہوتیں تو سلگ اُٹھتی ہیں ۔۔۔!
کوہساروں سے صدا آتی ہے :
سنگ میں رنگ تو ہوتے ہیں
مگر سنگ کے سینے میں اُتر جاؤ
تو خوشبو سے بھی خالی نہیں پاؤ گے اسے ۔۔۔!
برف کہتی ہے :
فقط یخ نہیں پیکر میرا
مجھ کو پگھلا کے بہاؤ تو بھڑک اُٹھوں گی
اور برقاؤں گی ‘ دمکاؤں گی ‘ گرماؤں گی ۔۔۔۔!
ہم جو مٹی کے کھلونے نظر آتے ہیں
اگر کوئی کرُیدے تو اسی مٹی میں
ذرّے ذرّے سےاُمڈتے ہوئے انوار بھی ہیں
ڈھیر رنگوں کے بھی
خوشبوؤں کے انبار بھی ہیں
ایسے کردار بھی ہیں
جیسے سرما میں سجل دھوپ کا ‘ گرما میں گھنی چھاؤں کا کردار ہوا کرتا ہے
وہی سب کچھ
جسے ہم پیار کا اعجاز بھی کہتے ہیں
جو صورتِ گر کونین نے
تخلیقِ دو عالم میں سمویا تھا فراوانی سے