تاریخ خانوادہ برکاتیہ
یہ خانداں ہے
امانتوں کا شرافتوں کا فضیلتوں کا نجابتوں کا
سلامتی کا یہ خانداں ہے
امانتِ نسلِ مصطفیٰ کو سنبھال کر ہم رکھے ہوئے ہیں
شریعتِ احمدی کے ہر ضابطے کو ہم نے
حیات کا جزو بنا رکھا ہے
کرم ہے رب عظیم کا یہ
ہے اس کا احساں ہمارے اوپر
کہ ہم کو توفیقِ حق عطا کی
ہمارے اجداد ارضِ طیبہ سے جو فضیلت لیے چلے تھے
دیارِ بغداد آ کے اس کو اک آفتابی جِلا ملی تھی
عراق کے ایک شہر واسط کو
ہم نے اپنا وطن بنایا
ہمارے اجداد نے جہاں اپنے علم و فضل
اور زہد و تقویٰ سے
عامتہ الناس کے دلوں میں
محمدی خانداں کی الفت کا ایک نوری دیا جلایا
عراق سے کارواں ہمارا براہ ایراں
دیارِ ہندوستاں میں آیا
یہ وقت وہ تھا کہ شمس دیں التمش سا سلطاں
وہ مرد درویش فقر ساماں
زمینِ ہندوستاں پہ امن و اماں کا سکہ چلا رہا تھا
اسی کے کہنے سے میر صغریٰ ہمارے دادا
سپاہِ شمسی لیے ہوئے بلگرام پہنچے
ظفر" خداداد ان کے حصّے میں
لوحِ محفوظ پر لکھی تھی
وطن ہوا بلگرام ان کا
خلافتِ بختیار کاکی نے ان کو روحانیت عطا کی
حسینیت ان کے خون میں تھی
جو ایک سے دوسرے کو پہنچی
اسی گھرانے کے ایک روشن چراغ تھے میر عبد واحد
شریعتوں سے جو منسلک تھے
طریقتوں میں جو منہمک تھے
سلوک اور جذب کے منازل
تصوف و فکر کے مراحل
خدائے برتر کے فضل سے طے کیے انہوں نے
کتاب سبعِ سنابل ان کی
حضورِ سرکارِ دو جہاں میں ہوئی ہے مقبول
یہ خاندانِ رسولِ اکرم
بہت سی شاخوں میں ہو کے تقسیم
ہند کے مختلف علاقوں میں بس گیا ہے
یہ خانقاہیں جو ہند میں ہیں
یہ سب اسی خاندانِ قدسی صفات کی
نوری کرنوں سے جگمگائیں
یہی وہ نسلِ رسول ہے جو
کہ پاک اصلاب کا تواتر لیے دیارِ برج میں پہنچی
جہاں کبھی بانسری کی تانیں
شعور کی گوپیوں کے ہوش و حواس کو
گمرہی کی دھن پر نچا رہی تھیں
اسی برج میں نبی کے کنبے نے
عامتہ الناس کے دلوں میں
اور ان کے ذہنوں میں
ربِ اعظم رسولِ اکرم کو
ماننے جاننے سمجھنے قبول کرنے کا شوق ڈالا
شعور کے رخ سے اٹھ گئے پھر
یقیں کے ہاتھوں گماں کے پردے
قرآن کی آیتوں نے
گنگ و جمن کے ساحل سے
منتر اور تنتر کی طنابیں اکھاڑ پھینکیں
سجائے وحدت کے شامیانے
لگائیں ایمان کی قناتیں
چھتوں چھتوں پھر اذانیں گونجیں
یہ رب تعالی کی مصلحت تھی
کہ عبدِ واحد کے پیارے بیٹے
وہ میر عبد الجلیل نامی
بحالتِ جذب سالہا سال
ساری مخلوق سے الگ ہو کے
خالقِ کل کی جستجو میں ادھر ادھر جنگلوں میں گھومے
معلم سبز پوش نے ان کو
معرفت کے رموز و اسرار
مکتبِ غیب میں پڑھائے
وہ میر عبد الجلیل نامی دیارِ مارہرہ میں بسے پھر
جو خانہء کاہ تھا شروع میں
وہ صورتِ خانقاہ ابھرا
یہ ارضِ مارہرہ جس کی تقدیس کی قسم کھائی
برندابن نے
بدایوں، متھرا، بریلی جس کو خراجِ تحسین دیتے آئے
یہیں پہ عبد جلیل کی خانقاہِ عالی سے
برکتوں کی پھوار نکلی
اسی افق پر ہزاروں سورج
ادب کے خورشید بن کے چمکے
یہ وقت وہ تھا
ابو ظفر محی دین اورنگ زیب
دلی کے تخت شاہی کی زیب و زینت بڑھا رہے تھے
اسی زمانے میں شاہ برکت
زمینِ مارہرہ سے جگت کو
بقائے باہم سلامتی اور امن عالم کا
اک نیا فلسفہ، نظریہ سکھا رہے تھے
کبھی وہ عشقی کا روپ لے کر
محب و محبوب اور محبت کا ربط ہم کو بتا رہے تھے
کبھی یہی شاہ برکت اللہ
برج کی میٹھی زبان میں
اپنے ہندی دیوان " پیم پرکاس " کے توسط سے
بھکتی تحریک کے شر نگار رس سے سرشار
دوہے ہم کو سنا رہے تھے
کبھی یہی تاجدارِ مارہرہ
کالپی جا کے خاندانِ محمدی کے
درخشاں کوخورشید شاہ فضل الہ سے
صہبائے قادریت کے جامِ لبریز پی رہے تھے
خمار سرکارِ کالپی کا چڑھا کچھ ایسا
کہ شاہ برکت نے پیم نگری کو
قادری میکدہ بنایا
یہیں سے عینی نے فکر و ذکرِ خدائے واحد
حدیث و قرآں کے خاندانی رموز و اسرار
اپنے قول و عمل کے ذریعہ
قلوبِ انسان میں انڈیلے
یہیں سے اچھے میاں نے دنیائے سنیت کو
سلوک اور جذب کے مراحل کی آگہی دی
یہیں سے آلِ رسول نے
اہلِ بیت اطہار کے تقدس کا سنیوں کو سلیقہ بخشا
یہی تھے وہ خاتم الاکابر
کہ جن کے ہاتھوں بکے بریلی کے خان زادے
مریدِ احمد رضا تھے ایسے
کہ جن پہ نازاں تھے ان کے مرشد
یہی وہ احمد رضا تھے جن کو
علوم ظاہر علوم باطن میں سب نے اپنا امام مانا
انھیں کی تقلید اس زمانے میں
سنیت کی کسوٹی ٹھہری
انھوں نے دنیا کو یہ بتایا
کہ پیر کا احترام کیا ہے
انھوں نے شعر و سخن کے میداں میں
نعت گوئی کا ایک اچھوتا شعور بخشا
رضا کے موئے قلم نے
نجدی ملاعنہ کے حواس پر بجلیاں گرائیں
"حسام الحرمین" ذوالفقار علی کی صورت
چلی سپاہِ وہابیہ پر
سکھایا احمد رضا نے دنیا کو
حق وباطل میں فرق کرنا
یہ فیض آلِ رسول کا تھا
امام احمد رضا نے دنیا میں اعلیٰ حضرت خطاب پایا
یہی وہ آلِ رسول تھے
جن کے وارث و جانشین نوری میاں بنے تھے
جنھوں نے عرفان و معرفت کے چراغ روشن
شہر شہر گاؤں گاؤں گھر گھر
دلوں کے طاقوں پہ تھے سجائے
یہی وہ مارہرہ ہے جہاں
ایک مرد درویش، شاہ طینت
جناب مہدی حسن کو
میراث غوثیت کی عطا ہوئی تھی
ہدایت و رشد کا یہ ورثہ
حضور مہدی میاں نے سید میاں کو بخشا
عوام کے روبرو انہیں اپنا
وارث و جانشیں بنایا
حریمِ مارہرہ کا یہ سید پیام برکاتیت کا لے کر
شہر شہر گاؤں گاؤں گھوما
علومِ قرآن کے مراکز کی نیو ڈالی
یہی وہ سید تھا جس نے دنیا کو
ایک تنظیم اک جماعت کے روپ میں
اتحاد رکھنے کا ایک اعلیٰ اصول بخشا
وصال کے وقت ان کے ہاتھوں میں
سیرتِ مصطفیٰ کی نوری کتاب
یعنی شفائے قاضی عیاض تھی جو
حدیثِ انوارِ مصطفیٰ پر کھلی ہوئی تھی
پھر ان کا اکلوتا بیٹا
آلِ رسول حسنین مسند نوریہ پہ بیٹھا
وراثتِ آلِ مصطفیٰ کو سنبھالنے کی
صلاحیت اس کو رب نے بخشی
وہ اپنے گھر کی روایتوں کو گلے لگائے
خدا کے فضل و کرم پہ شاکر
قناعت و شکر نعمت رب کی
شمع روشن کیے ہوئے ہے
خدائے برتر تو اس حسینی چراغ کو
نور مصطفیٰ کی تمام تابانیاں عطا کر
یہ شاہ برکات کا گھرانہ
جہاں کی آنکھوں کا نور بن کر
نفس نفس کا سرور بن کر
صداقتوں کا عدالتوں کا، سخاوتوں کا، شجاعتوں کا
سیادتوں کا، شہادتوں کا، کرامتوں کا
نقیب کہلائے
یا الہٰی
امانتوں کا شرافتوں کا
فضیلتوں کا نجابتوں کا یہ خانداں ہے
ہمیشہ یہ الفت و محبت کا آئینہ بن کے
جگ میں چمکے
اور اس کی تابندگی سے ہو جائیں
آنکھیں دشمن کی خیرہ خیرہ
خدائے واحد
تو اس گھرانے کو اتنا دے دے
کہ دوسروں کو بھی فیض پہنچے
تو اس کو اچھائیاں عطا کر
برائیاں اس سے دور کردے
خدائے برتر
یہ تیرے محبوب کا چمن ہے
تو اس کے ہر پھول ہر کلی کو
بہار کا رنگ بخش دینا
یہ کاروانِ محمدی ہے
حیات کی شاہراہ پر ان مسافروں کو
تو اپنے فضل و کرم کے سائے میں
منزلوں کی طرف چلانا
تو ان کو جسمانی مالی روحانی مشکلوں سے
سدا بچانا
تو ان کے آنگن کو مثلِ گلشن
ہرا بھرا صبح و شام رکھنا
الٰہی نظمی کی یہ دعا ہے
کہ شاہِ برکت کی پیم نگری کو
یوں ہی آباد و شاد رکھنا
اے رب ہمارے
تو پیمی جی کے پریمیوں کو پریم والا بنائے رکھنا
یہ التجا رائیگاں نہ جائے
قبول کر لے قبول کر لے
دعائیں میری قبول کر لے
الٰہی اپنے کرم سے میری زباں میں اتنا اثر عطا کر
ادھر دعا ہو مری زباں پر ادھر فرشتے پکاریں "آمین"۔