غَم ِ شہادتِ شبیّر کی گواہی دے

غَم ِ شہادتِ شبیّر کی گواہی دے

مِرے قَلم کو بھی اے خُونِ دِل سیاہی دے


فرات نے نہ دیا دیں کے لال کو پانی

پلاؤ آنسوؤ اُس کے خیال کو پانی


جو ہاتھ مشعلِ خَیْرُ البَشَر لِیے نِکلا

اندھیرا، اُس کا ہی نیزے پہ سَر لِیے نِکلا


اُسی کی رَگ پہ چلی تیغ شمرِ بے حِس کی

طنابِ خیمہء حق تھی ہر اِک صدا جس کی


ہر ایک سانس تھی جِس کی پناہ گاہِ حَرم

اُسی کو کاٹ کے گُزری ہے شاہراہِ حرم


گڑی تھی جس کے بدن میں یزیدیت کی اَنی

اُسی کے خُون کی لَو دین کا ستون بنی


کیا تھا قتل جسے شام کے علاقوں میں

وہی چراغ جلا آندھیوں کے طاقوں میں


گلے کے بل جو مظفّر وفا کی راہ چلا

اسی کے دم سے یہ دستورِ لا اِلٰہ چلا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر

جِس نام سے زندہ ہے تُو

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا

آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

سینکڑوں سال ہُوئے جب نہ مِلا تھا پانی

آج پھر عہدِ گز شتہ کی صدا آئی ہے

دُنیا بھلی سے بھی ہے بھلی داتا

آیا نہ ہوگا اس طرح، حسن و شباب ریت پر

یا علی ؑ وِرد کی پُکار ہُوں مَیں