جِس نام سے زندہ ہے تُو

جِس نام سے زندہ ہے تُو

ہر آنکھ میں اُس کا لہُو


ہر سانّس اُس کا قافلہ

اے کربلا اے کربلا


تیری جھُلستی ریت پر ، تڑ پا وہ پَیکر یاس کا

یہ ساحلِ دریا تِرا ، کتبہ ہے جس کی پیاس کا


بنتِ رسالت جس کی ماں

وہ جُراتوں کا لختِ جاں


سچائیوں کا لاڈلا

اے کربلا اے کربلا


گھوڑے سے مٹّی پر گِرا جو آبشاروں کی طرح

بِکھری تھی جِس کی زندگی قرآں کے پاروں کی طرح


تاجِ سحر جس کی ضیا

تھا اُس کا سر ایسا دِیا


جو نوکِ خنجر پر چلا

اے کربلا اے کربلا


جِس کی اُکھڑتی سانس نے گردن مروڑی ظُلم کی

اور نزع کی اِک ضرب سے تلوار توڑی ظلم کی


جِس نے کیا دستِ سِتم

انکارِ بَیعت سے قلم


جو تھا سراپا ، حوصلہ

اے کربلا اے کربلا


یوں جاں اگر دیتا نہ وُہ چرچے نہ ہوتے دین کے

اُس کی زبانِ خُشک سے پھُو ٹے ہیں سوتے دین کے


کہسار، اُس کی قبر بھی

اُس کا سکوتِ صبر بھی


دھڑکن ، حرارت، ولولہ

اے کربلا اے کربلا


ہے اِک ستونِ روشنی وُہ نا اُمیدوں کے لِیے

دہشت ہے اُس کی مُستقل سارے یزیدوں کے لِیے


باطل کو غارت کر گئی

اُس کی جسارت کر گئی


مظلوم قوموں کا بھلا

اے کربلا اے کربلا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

ہے رتبہ اس لیے کونین میں عصمت کا عفت کا

ہمارے آقا ہمارے مولیٰ امامِ اعظم ابوحنیفہ

ہوگیا یاغوث میں برباد ہوتے آپ کے

چار یار

خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا

آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

غَم ِ شہادتِ شبیّر کی گواہی دے

سینکڑوں سال ہُوئے جب نہ مِلا تھا پانی