ہوگیا یاغوث میں برباد ہوتے آپ کے

ہوگیا یاغوث میں برباد ہوتے آپ کے

رہ گیا میں بے کس و ناشاد ہوتے آپ کے


گھوم پھر کر دیکھا سب دروازے مجھ پر بند ہیں

اب کدھر جاؤں شہِ بغداد ہوتے آپ کے


کربلا والوں کا صدقہ مجھ دُکھی پر رحم کر

اب کہاں جا کر کروں فریاد ہوتے آپ کے


دیس چھوٹا سارے ساتھی چل دیئے منہ موڑ کر

رہ گیا پردیس میں ناشاد ہوتے آپ کے


سیدا بغداد والے یہ مدد کا وقت ہے

مجھ پہ کیسی پڑگئی اُفتاد ہوتے آپ کے


تم سخی ابن سخی ابن سخی ہو ُخسروا

یہ گدا کس کو کرے پھر یاد ہوتے آپ کے


تم شہِ بغداد مولا میں غلامِ خانہ زاد

رنج و غم سے کیوں نہ ُہوں آزاد ہوتے آپ کے


عبدِقادر آپ ہیں ہر شے پہ قادر آپ ہیں

پھر کہوں کس سے پئے اِمداد ہوتے آپ کے


آپ کا ارشادِ عالی ہے مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ

رَنج میں ہے سالکِؔ ناشاد ہوتے آپ کے

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

غوثِ اَعظم دستگیرِ بے کساں

فاطمہ زَہرا کا جس دن عقد تھا

نعیمِ دِین و ملت ناصرِ شرعِ مبیں تم ہو

ہے رتبہ اس لیے کونین میں عصمت کا عفت کا

ہمارے آقا ہمارے مولیٰ امامِ اعظم ابوحنیفہ

چار یار

خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر

جِس نام سے زندہ ہے تُو

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا