اسلام کی شوکت صدفِ دیں کا گُہَر ہے

اسلام کی شوکت صدفِ دیں کا گُہَر ہے

شہکار رسالت جسے کہیئے، وہ عمر ہے


جس نام کے صدقے سے دُعاؤں میں اثر ہے

وہ نامِ عمر، نامِ عمر، نامِ عمر ہے


مہتاب کے حلقے میں ستارے ہیں صف آرا

یوں حُسن شبِ ماہ کا، ہمرنگِ سحر ہے


وہ صحنِ حرم اور وہ اِک اینٹ کا تکیہ

کیا تربیتِ سرورِؐ عالَم کا اثر ہے


فقر ایسا کہ دیں قیصر و کسرٰی بھی سلامی

حُکم ایسا کہ دریا بھی جھکائے ہوئے سَر ہے


عدل ایسا پکڑ سکتے ہیں کمزور بھی دامن

رُعب ایسا کہ خود ظلم کا دل زیر و زبر ہے


کترا کے گزر جاتا ہے اُس دن سے ہر اِک غم

جس دن سے مِرے وردِ زباں ، نامِ عُمر ہے


کعبے میں نماز آج ادا ہو کے رہے گی

خطّاب کے بیٹے کی یہ آمد کا اثر ہے


دل سے جو پُکارو گے عُمر کو ، تو دمِ رزم

یہ نام ہی شمشیر ، یہی نام سِپَر ہے


"ہوتا جو نبی کوئی مِرے بعد ، تو فاروق"

اُس کا ہے یہ فرمان کہ جو خیرِ بشر ہے


قرآن کی آیات یہ دیتی ہیں گواہی

تقوٰی جسے کہتے ہیں، وہ کردارِ عمر ہے


جو صاف دماغوں ہی کو رکھتا ہے معطَّر

اسلام کے گُلشن کا عمر وہ گُلِ تر ہے


ہے جن کی غلامی بھی اک اعزاز ، وہ لاریب

بُو بکر ہے عثمان ہے حیدر ہے عمر ہے


وارد ہے تِری شان میں لَوکانَ نبّیٌ

بِن مانے تِرے کوئی مَفَر ہے ، نہ مَقَر ہے


ہر سلسلہ فیض میں چمکے تِر ے موتی

کوئی ہے مُجدِّدؒ ، تو کوئی گنجِ شکرؒ ہے


پھر آج ضرورت ہے تِری، نوعِ بشر کو

اِس عہد کا مظلوم، تِرا راہ نِگر ہے


وہ دَور نہ پا کر بھی یہ نسبت ، کہ نصیؔر آج

بیعت تِرے افکار کی ، بر دستِ عمر ہے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

کیوں نہ لب پر ہو مرے مدحتِ ازواجِ رسول

قابلِ دید ہیں سب ماہ لقا لڑکے ہیں

نازشِ صدق و صفا تُم پر سلام

خلافتِ شہِؐ کی ابتدا صدّیق

مُسّلَم ہے محمؐد سے وفا صدّیقِ اکبر کی

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

اللہ اللہ یہ تھی سیرتِ عثمان غنی

السّلام اے نوعِ انساں را نویدِ فتحِ باب

کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پُکارے یا علی

گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات