خلافتِ شہِؐ کی ابتدا صدّیق
وفا و عشقِ پیمبرؐ کی انتہا صدّیق
رسولِؐ پاک پہ دل سے نثار تھا صدّیق
خلوص جس کا مُسلّم ، وہ رہنما صدّیق
وہ مُقتَدر، وہ مکَرَّم ، وہ فقر کا پیکر
وہ پاک باز، وہ عابد، وہ باخدا ، صدّیق
وہ سرورِؐ دوسَرا کا مُصَدِّقِ اوّل
وہ یارِ غار، وہ دونوں میں ، دُوسرا صدّیق
فروغِ صدق سے معمور جس کا اک اک لفظ
وہ حق پرست وہ حق آگاہ وہ حق نوا صدّیق
محافطِ سُنَن و مصدرِ حمیّت ِ دِیں
نبیؐ کی دین ہے ، اللہ کی عطا، صدّیق
امِامُ اُمَّۃِ خَیؐرِ الانامِ بِالْاِجِمْاع
سِناَمُ سِلسَلۃ الرُّشْدِ فِی الْوَرٰی، صدّیق
حَفِیظُ دِینِ اِلٰہِ الْاناسِ بِالْا خْلاص
جَمالْ سِیْرَۃِ مَحبُوْبِ رَبِّنا، صدّیق
وَحِیْدُ کُلِّ زَمَانٍ وَّ قِدْوَۃُ العَصْرٖ
سَبَق ز جملہ بِبُردہ است در وفا صدّیق
اَمِیْنُ سِرِّ حَبِیْبِؐ الْاِ لٰہِ فِی الدُّنْیا
مکینِ قُربِ شہنشاؐہِ انبیاؑ، صدّیق
انیسِ سیّدِؐ ابرار، اِذْ ھُما فِی الْغَار
رئیسِ عَسکرِ اَحرار فی الوغٰی صدّیق
وہ حق مآب، وہ سرخیلِ زُمرہ اصحاب
وہ دِیں پناہ، وہ اُمّت کا مُقتدا صدّیق
بشر کو چاہئے جس کے لیے حیاتِ خِضَر ؑ
قلیل وقت میں وہ کام کر گیا ، صدّیق
روانہ جَیشِ اُسامہ کیا بلا تا خیر
کہ جانتا تھا پیمبرؐ کا مُقتضیٰ صدّیق
عَدُوئے خؐتمِ رسُل تھا مُسیلمہ کذّاب
سَر اُس لعین کا بس لے کے ہی رہا ، صدّیق
اُسی کے لہجے میں حق نے نبیؐ سے باتیں کیں
فرازِ عرش پہ جیسے ہو لب کُشا صدّیق
شرف ہزار تھا حاصل اُسے رفاقت کا
غلام بن کے رہا پھر بھی آپؐ کا ، صدّیق
نہ حُبِّ جاہ، نہ منصب کی چاہ تھی اُس کو
حُطامِ دَہر سے تھا عُمر بھر جُدا ، صدّیق
سفر حَضَر میں رہا ساتھ اپنے آقاؐ کے
یہ شانِ مہر و وفا، واہ، مرحبا صدّیق
نبیؐ علیل تھے، پُوچھا بلال نے آکر
نماز کون پڑھائے ہمیں ؟ کہا، صدّیق
چناں نواخت پیمبر ؑز لُطفِ خویش آں را
کہ کس بہ سعی نخواہد رسید تا صدّیق
مُفَوَّضَش ز نبیؐ بود منصبِ ارشاد
ازاں نشست نہ در کُنجِ اِنزوا صدّیق
ز بعد ِ مرگ بہ آغوشِ رحمتش پیوست
بہ قُربِ سیّدِ ؐ کونین یافت جا صدّیق
چوبر ضریحِ نبیؐ بعدِ مرگ بُردَندش
نِدا رسید کُجائی؟ بیا! بیا ! صدّیق
ز جورِ تشنگی و دَردِ فقر برسرِ خود
کشید بہرِ پیمبرؑ چہا چہا صدّیق
وہ ایک اپنی مثال آپ تھا زمانے میں
جَنے گی مادرِ گیتی ، نہ دُوسرا صدّیق
جو پَست ذہن ہو یہ اُس کے بس کی بات نہیں
علی سے پُو چھ! کہ کتنا عظیم تھا صدّیق
اُسے نیاز تھا زھرا و آلِ زھرا سے
صَمیمِ دل سے تھا سَبطین پر فدا صدّیق
مقامِ آلِ محمدؐ اُسی کو تھا معلوم
تھا اُن کی شان سے آگاہ برملا صدّیق
مُحِب کو ہوتی ہے محبوب، عترتِ محبوب
کرو یہ غور! مُحِب کون پھر ہُوا؟ صدّیق
علی کی شان سے انکار کا سوال نہ تھا
علی کو مانتے تھے اَحَسنُ القَضا، صدّیق
ہے ٹکڑے ٹکڑے عقائد کی رُو سے پھر اُمّت
مدد کا وقت ہے آج، الغیاث یا صدّیق
ہماری کون سُنے گا سُنی نہ تُو نے اگر
تِری ہی ذات ہے ہم سب کا آسرا صدّیق
خدا کا شکر کہ ہے تیری ذات سے نسبت
تِرا وجود ہے تنویرِ مصؐطفیٰ ، صدّیق
مَیں چُومتا ہُوں تصوّر میں تیرا نقشِ قدم
ہے تیرا نقشِ قدم منزلِ بقا، صدّیق
حُسیَنی و حَسنَی ہُوں اگرچہ مَیں نَسَبًا
ہے ثَبت قلب میں لیکن تِری وِلا ، صدّیق
یہ آرزو ہے کہ محشر میں میرے ساتھ نصیؔر
عُمر ہوں ، حضرتِ عُثماں ہوں مُرتضٰے، صدّیق
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت