جانشینِ قُطبؒ و دلبندِ عُمر کا عرس ہے

جانشینِ قُطبؒ و دلبندِ عُمر کا عرس ہے

آج زُہدُ الانبیا گنجِ شکرؒ کا عرس ہے


ہر طرف سے اُٹھ رہا ہے نعرہء حق یا فریدؒ

کیا انوکھی آن، کس شانِ دگر کا عرس ہے


لوگ پلکوں کی طرح صف بستہ ہیں گِردِ مزار

خواجہء اجمیریؒ کے منظورِ نظر کا عرس ہے


چشتیو آؤ ذرا دیکھیں اجودھن کی بہار

اوج پر ہیں رونقیں ، کس کرّو فر کا عرس ہے


سج رہا ہے آج دلہن کی طرح شہرِ فریدؒ

نور کی بارش میں بھیگے بام ودر کا عرس ہے


جس کی چوکھٹ پر جھُکے دیکھے شہنشاہوں کے سر

فقر کی دنیا کے ایسے تاجور کا عرس ہے


غوثِ اعظمؒ کا نظر آتا ہے توحیدی جلال

سارے عُرسوں سے جدا گنجِ شکرؒ کا عرس ہے


قادری جلووں میں شامل ہیں فریدی رنگتیں

یوں لگے ہے جیسے یہ اپنے ہی گھر کا عرس ہے


مجھ سے گر پوچھے کوئی تو شمع کی لَو پر نصیؔر

رقصِ پروانہ بھی گویا لمحہ بھر کا عرس ہے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

دل رُبا دل نشیں معینُ الدّیںؒ

مِرا جہاں میں ظُہور و خِفا مُعینی ہے

پیرِ رُومیؒ آں معارف دستگاہ

ہُوئے ہیں دیدہ و دل محوِ شانِ گنجِ شکرؒ

مُژدہء تسکین فَزا گنجِ شکرؒ کا عرس ہے

تیرے دَر پر مَیں آیا ہُوں خواجہؒ

عاشقانِ ذاتِ حق کا مدّعا کلیر میں ہے

حق جلوہ و حق شانی بہ شکلِ نُورانی

عارفِ حق، زُبدہء اہلِ نظر

دلوں کے سہارے توآنکھوں کے تارے