مصائب نے گھیرا مُجھے غوثِ اعظم

مصائب نے گھیرا مُجھے غوثِ اعظم

کریں مشکلیں حل مرے غوثِ اعظم


بھری جھولی تُو نے سبھی کی ہے میراں

مری جھولی بھر دو مرے غوثِ اعظم


ہیں ہم قادری اور یہ نسبت بڑی ہے

خوشا ! ہم ہوئے ہیں ترے غوثِ اعظم


اُسی رہ پہ ہم کو چلانا خُدایا!

کہ جس راستے پر چلے غوثِ اعظم


ہے کیا میٹھا لہجہ ! اُترتی ہے دل میں

تری بات جو بھی سُنے غوثِ اعظم


جنہیں تُو نے چشمِ کرم سے نوازا

وہ قُطبِ زمانہ بنے غوثِ اعظم


ہے سیلِ بلا میں یہ کشتی ، اَغِثنِی !

مرے غوثِ اعظم ، مرے غوثِ اعظم


نبھانا مُریدوں سے واں بھی خُدارا !

برے ہوں کہ ہوں یہ بھلے غوثِ اعظم


جلیلِ حزیں سے گدا پر ہمیشہ

کرم کی نظر ہی رہے غوثِ اعظم

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ہوا ہے آپ کے در پر قیام یا زہرا

اِک رفیقِ با وفا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں

مُجھ کو ہے میری جان سے پیارا علی علی

میرے آقا کی نُورِ نظر فاطمہ

کرب و بلا ہے ظلم کی اِک داستان ہے

ہے میرے شیخِ کامل کا زمانے میں ہُنر زندہ

ہے قُرآن و سُنّت بھی ، حکمت یہاں ہے

کونین کا جواب رُخِ بو تراب ہے

علی کا وصف اور میری زباں توبہ ارے توبہ

علی کے عشق کا بیمار بیمارِ محمدؐ ہے