نصیب تھا علی اصغر کا یار بچپن میں
بنایا خلد کو جائے قرار بچپن میں
حسین ابنِ علی کے جگر کا ٹکڑا تھا
جو کربلا میں ہوا مشکسار بچپن میں
دیئے گئے اسے تسنیم و سلسبیل کے جام
جو تشنگی نے کیا بے قرار بچپن میں
علی کا عزمِ شجاعت تھا اس کے چہرے پر
نبی کے نور کا تھا عکس دار بچپن میں
گیا ہے چھوڑ کے آغوشِ مادری کا سکوں
چنا ہے جس نے شہادت کا بار بچپن میں
علی کا خون تھا منہ پھیر کر کہاں جاتا
خوشی سے سہہ لیا دشمن کا وار بچپن میں
یہ بے مثال ہے کمسن شہیدِ کرب و بلا
ہوا جو دینِ خدا پر نثار بچپن میں
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت