طاری ہے اہلِ جبر پہ ہیبت حسین کی

طاری ہے اہلِ جبر پہ ہیبت حسین کی

اللہ رے یہ شانِ جلالت حسین کی


کٹوا کے سر گواہیِ توحید دے گئے

بے مثل ہے جہاں میں شہادت حسین کی


سُونگھی تھی لے کے ہاتھ میں دشتِ بلا کی خاک

ناناؐ کے سامنے تھی مصیبت حسین


کرتے قبول بیعتِ فاسق وہ کس طرح

دستِ محمّدی پہ تھی بیعت حسین کی


پیشِ نظر حُصول نہ تھا تخت و تاج کا

تھی ظلم کے خلاف بغاوت حسین کی


نرمی وہی خلوص وہی سادگی وہی

ملتی تھی مصطفیٰؐ سے طبیعت حسین کی


محشر میں اجتماع کا یہ اہتمامِ خاص

شاید دکھائی جائے گی صورت حسین کی


کل بھی دلوں پہ راج تھا زھرا کے لا ل کا

ہے آج بھی دلوں پہ حُکومت حسین کی


اظہار حرفِ حق پہ ہیں پہرے لگے ہوئے

محسوس ہو رہی ہے ضُرورت حسین کی


جو اُن پہ مر مٹا وہی ٹھہرے گا سر خرو

محشر میں رنگ لائے گی نسبت حسین کی


رکھتے ہیں اپنی یاد سے آباد میرا دل

ہے مجھ پہ یہ نصیؔر عنایت حسین کی


نکلا وہ ذُوالجناح عَلَم کے جُلُوس میں

کرلو نصیؔر بڑھ کے زیارت حسین کی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

جنہیں نصیب ہُوئی تن سے سَر کی آزادی

پانی کی جو اک بوند کو ترسا لبِ دریا

حُسن ِ تخلیق کا شہکار حسین ابنِ علی

اے دوست چیرہ دستئ دورِ جہاں نہ پوچھ

آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو

نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے

بس اب تو رہتے ہیں آنکھوں میں اَشک آئے ہوئے

تڑپ اُٹھتا ہے دل لفظوں میں دُہرائی نہیں جاتی

تذکرہ سُنیے اب اُن کا دلِ بیدار کے ساتھ

حسین زُبدہء نسلِ رسول ابنِ رَسُول