نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے
یہ دل حُبِّ آلِ نبیؐ میں مگن ہے
حسین و حسن ہیں وہ پیکر کہ جن میں
بَتُولی نجابت رَسُولی چلن ہے
مِرے سر میں سودائے زہرا و حیدر
مِرے دل میں عِشقِ رَسُولِ زمن ہے
تصوّر میں ہیں میرے سجّاد و زینب
نگاہوں میں روئے حسین و حسن ہے
سکینہ کی وہ پیاس وہ ضبطِ گریہ
کہ نہرِ فرات آج بھی نوحہ زن ہے
وہ معصوم اصغر کی معصوم ہچکی
اِسی غم کے سکتے میں چرخِ کہن ہے
لہو میں اِدھر تُو نہایا ہے اصغر
اُدھر تیرا بابا بھی خونیں کفن ہے
وہ زینب جو کل تھی مدینے کی مالک
وہ اب کربلا میں غریبُ الوطن ہے
کہا ماں نے اکبر کے قاتل سے رُک جا
شبیہِ محمدؐ ہے ، نازک بدن ہے
یہ کیوں محوِ گریہ ہے محفل کی محفل
یہاں کیا کوئی ذکرِ طوق و رسن ہے ؟
دکھا دے جھلک اب تو اے ماہِ زہرا
شہِ مُنتَظَر، مُنتَظِر انجمن ہے
کھِلے پھول ہیں جس میں زہرا کے ہر سُو
محمدؐ کا بھی کیا مہکتا چمن ہے
ستم سہہ کے بھی اُن کے تیور نہ بدلے
وہی تمکنت ہے، وہی بانکپن ہے
حُسین ابنِ زہرا کا مُکھڑا تو دیکھو
علی کی وجاہت، نبی ؐ کی پھبن ہے
بہاؤ غمِ آلِ زہرا میں آنسو
یہ اہلِ مَوَدَّت کی رسمِ کُہن ہے
ثنا کیجئے کھُل کر آلِؐ عبا کی
کہ ذکر اُن کا خود آبروئے سُخن ہے
نہ چُھونے کہیں اُن کی نسبت کا دامن
بہت ہی بڑی دولت اُن کی لگن ہے
نہ کیوں مُجھ پر اِترائے معجز بیانی
کہ مُنہ میں علی کا لُعابِ دہن ہے
نصیؔر اب میں کیوں مانگنے دُور جاؤں
یہ مَیں ہُوں ، یہ دروازہء پنجتن ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت