جس کی جراءت پر جہانِ رنگ و بُو سجدے میں ہے

جس کی جراءت پر جہانِ رنگ و بُو سجدے میں ہے

آج وہ رمز آشنائے سرَّ ھُو سجدے میں ہے


ہر نَفَس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے

منزلِ حق کی مُجَّسم جُستجو سجدے میں ہے


با نیاز بندگی اللہ کا اِک عبدِ خاص

حسبِ حکمِ فَاعْبُدُوہُ وَاسْجُدُو سجدے میں ہے


کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مُصلّٰے پر کھڑا

کیا نمازی ہے کہ بے خوفِ عَدُو سجدے میں ہے


اے حُسین ابنِ علی تجھ کو مبارَک یہ عُروج

آج تُو اپنے خدا کے رُو برو سجدے میں ہے


ابنِ زھرا اِس تِری شانِ عبادت پر سلام

سر پہ قاتل آچکا ہے اور تُو سجدے میں ہے


اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہِ مصطفیٰؐ

جیسے خود ذاتِ پیمبر ہُو بَہُو سجدے میں ہے


یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل

سر ہے نیزے کی بلندی پر، لَہُو سجدے میں ہے


محوِ حیرت ہیں ملائک ، دم بخود ہے کائنات

آج مقتل میں علی کا ماہرُو سجدے میں ہے


تھا عمل پیرا جو کلّا لا تُطِعْہُ پر ، وہ آج

بن کے وَاسْجُد وَاقْتَرِبْ کی آرزو سجدے میں ہے


سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لا ل

کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے


کون جانے ، کون سمجھے ، کون سمجھائے نصیؔر

عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے

بس اب تو رہتے ہیں آنکھوں میں اَشک آئے ہوئے

تڑپ اُٹھتا ہے دل لفظوں میں دُہرائی نہیں جاتی

تذکرہ سُنیے اب اُن کا دلِ بیدار کے ساتھ

حسین زُبدہء نسلِ رسول ابنِ رَسُول

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

دلِ مایوس کو دیتا ہے سہارا داتاؒ

ہر قدم پر ہمیں بخشے گا سہارا داتاؒ

اک اک ولی رہینِ کرم غوثِ پاکؒ کا