یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

جیسے ہجوم کفر میں نورِ خدا چلے


مقتل میں سر کٹانے کو اہلِ رضا چلے

پیماں شبِ الست کا کرنے وفا چلے


بولے حسین ہو نہ سکے گا وہ مندمل

اصغر جو زخم تم مرے دل پر لگا چلے


ہستی بقدرِ فرصت رقصِ شرر ملی

تم اِس سرائے فانی میں کیا آئے کیا چلے


گزرا گراں ذرا نہ کڑی دھوپ کا سفر

شبّیر زیرِ سایہء فضلِ خدا چلے


زہرا کے لاڈلوں کو دُعا دے تُو کربلا

تُو کیا تھی اور وہ تجھے کیا کیا بنا چلے


اُن منزلوں کو سر کیا آخر حسین نے

جن منزلوں کو عزم لیے انبیا چلے


ہے مرقدِ سکینہ ادب گاہِ کائنات

بے باک اِس قدر نہ یہاں پر صبا چلے


شبّیرؓ ہے وہ تاجورِ کشورِ عطا

جس کی گلی میں شاہ بھی بن کر گدا چلے


ابن علی کی مثل نہ دیکھا کوئی سخی

آئی جو حق پہ آنچ تو کنبہ لُٹا چلے


احسان کوئی مانے نہ مانے حسین کا

سر پیش کر دیا مگر اُمّت بچا چلے


جی بھر کے رو سکے نہ ترے غم میں اے حسین

ہم بد نصیب دہر میں کیا آئے کیا چلے


سُننے کو سیّدوں کے مصائب کا تذکرہ

اصحابِ درد جانبِ بزمِ عزا چلے


دکھلا کے خواب میں رُخِ پُر نور کی جھلک

وہ میرے غمکدے کا مقدّر جگا چلے


کُھلتا نہیں حسین و حسن ہیں کہ مصطفےٰؐ

کچھ فرق ہو نصیؔر تو کوئی پتا چلے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

تڑپ اُٹھتا ہے دل لفظوں میں دُہرائی نہیں جاتی

تذکرہ سُنیے اب اُن کا دلِ بیدار کے ساتھ

حسین زُبدہء نسلِ رسول ابنِ رَسُول

جس کی جراءت پر جہانِ رنگ و بُو سجدے میں ہے

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

دلِ مایوس کو دیتا ہے سہارا داتاؒ

ہر قدم پر ہمیں بخشے گا سہارا داتاؒ

اک اک ولی رہینِ کرم غوثِ پاکؒ کا

سارا عرب تمام عجم غوثِ پاکؒ کا

ہُوا سارے جہاں میں بول بالا غوثِ اعظمؒ کا