عاصیوں کو در تمہارا مل گیا

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا

بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا


فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی

مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا


کشفِ رازِ مَن رَّاٰنی یوں ہوا

تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا


بیخودی ہے باعثِ کشفِ ِحجاب

مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا


ان کے دَر نے سب سے مستغنی کیا

بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا


ناخدائی کے لئے آئے حضور

ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا


دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا

نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا


آنکھیں پر نم ہو گئیں سر جھک گیا

جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا


خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن

مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا


ہے محبت کس قدر نامِ خدا

نامِ حق سے نامِ والا مل گیا


ان کے طالب نے جو چاہا پالیا

ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا


تیرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب

مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا


اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب

ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

سحابِ رحمت باری ہے بارہویں تاریخ

سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض

سحر چمکی جمالِ فصل گل آرائشوں پر ہے

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ

اَلسَّلَام اے خسروِ دنیا و دِیں

فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اَعلٰی تیرا

قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا