سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

سوئے جنت کون جائے دَر تمہارا چھوڑ کر


سر گزشت غم کہوں کس سے تِرے ہوتے ہوئے

کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر


بے لقائے یار ان کو چین آ جاتا اگر

بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر


کون کہتا ہے دلِ بے مُدَّعا ہے خوب چیز

میں تو کوڑی کو نہ لوں ان کی تمنا چھوڑ کر


مر ہی جاؤں میں اگر اس دَر سے جاؤں دو قدم

کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر


کس تمنا پر جئیں یارب اَسیرانِ قفس

آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر


بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے

کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر


خلد کیسا نفس سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں

بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رَستہ چھوڑ کر


ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار

کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر


حشر میں ایک ایک کا مونھ تکتے پھرتے ہیں عدو

آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر


مر کے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ

جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مَدینہ چھوڑ کر

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

رحمت نہ کس طرح ہو ُگنہ گار کی طرف

سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا

سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب

سحابِ رحمت باری ہے بارہویں تاریخ

سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض

سحر چمکی جمالِ فصل گل آرائشوں پر ہے

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا

عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں