ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

شام کی خوشبو میں پنہاں ہے سحر کی خوشبو


ان کی جالی سے ابھرتی ہوئی خوشبو کے طفیل

رچ گئی میری دعا میں بھی اثر کی خوشبو


روزنِ چشم سے احساس کے دروازے سے

دم بہ دم آتی رہی دیدۂ تر کی خوشبو


کیا بتائیں کہ زباں ساتھ نہیں دیتی ہے

اک انوکھی سی عجب سی تھی سفر کی خوشبو


آپؐ چاہیں گے تو محفوظ بھی رہ جَائے گی

روح میں اتری ہوئی آپ کےؐ در کی خوشبو

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

سو رنگ ہیں اب پاس مرے دیدہ وری کے

جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

دل کی دھڑکن تیز، ہستی صورتِ تصویر تھی

اب کیسے کہیں کیا کہیں اور کیا نظر آیا

ہر اک منظر ہے دل آویز خوشبو ہے ہواؤں میں

عام سی بات تھی قطرے کا گہر ہو جانا

ایک شعر

ہم بھی آراستہ تھے رنگوں سے