یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

دوڑتے تھے، کبھی سنبھلتے تھے


جب چلا قافلہ سوئے طیبہ

آگے آگے چراغ جلتے تھے


جیسے پہلے نہ تھے کبھی وہ سنگ

سنگ شیشے میں ایسے ڈھلتے تھے


ایک سیلابِ نور آتا تھا

جب ستارے فلک پہ ڈھلتے تھے


زندگانی تجھے برتنے کے

روز پہلو نئے نکلتے تھے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

سو رنگ ہیں اب پاس مرے دیدہ وری کے

جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

دل کی دھڑکن تیز، ہستی صورتِ تصویر تھی

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

اب کیسے کہیں کیا کہیں اور کیا نظر آیا