درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

تو لگا کہ جیسے ہم بھی حدِ زندگی میں پہونچے


وہی حال تھا ہمارا، وہی رنگ تھا ہمارا

کہ اندھیروں سے اچانک کوئی روشنی میں پہونچے


وہ مدینے والی گلیاں، کھلیں جن میں دل کی کلیاں

کبھی اِس گلی سے نکلے، کبھی اُس گلی میں پہونچے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

حضورؐ نے شجرِ سایہ دار میں رکھا

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

حرم کہاں وہ حرم والے کا دیار کہاں

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

سو رنگ ہیں اب پاس مرے دیدہ وری کے