عرش سے بھی ماورا آقا گئے

عرش سے بھی ماورا آقا گئے

لامکاں معراج کے دولہا گئے


ہر طرف ہے شادمانی کا سماں

شور ہے معراج کو آقا گئے


اُس رُخِ بدرُالدُّجیٰ کے سامنے

چاند اور تارے سبھی شرما گئے


ہر طرف پھیلے اُجالے نور کے

ذرّہ ذرّہ بے بہا چمکا گئے


ڈالیاں ہیں وجد میں نِکھرا چمن

چار سُو بادل کرم کے چھاگئے


مُقتدی بن کر کھڑے ہیں انبیاء

وہ جو پہلے سلطنت فرما گئے


مصطفیٰ سب انبیاء کے ہیں امام

واہ وا عزّ و شرف وہ پا گئے


چھا گئی فصلِ بہاری ہر طرف

زمزمے گا کر شجر لہرا گئے


ساتھ تھے روح الامیں سدرہ تلک

لامکاں سرکار بس تنہا گئے


مَن الرّاٰنِی کی صدائیں تھیں وہاں

دِیدِ حق میرے محمد پا گئے


راز تھے قصرِ دنیٰ کے جس قدر

جانتے وہ سیّدِ والا گئے


ہے یہ محبوبِ خدا کا معجزہ

آنِ واحِد میں گئے اور آ گئے


کیوں بھلا مرزا وہ بھولیں حشر میں

یاد جب معراج میں فرما گئے

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

جہان رب نے بنائے حضور کی خاطر

ہے نظر جن عاشقوں کی کُوئے جاناں کی طرف

مصطفیٰ کا دیار کیا کہنے

سرکارِ دو عالم کا اگر در نہیں دیکھا

خدا کی راہ پر سب کو چلانے آ گئے آقا

صاحِبِ شان و ذی وقار حضور

شانِ محبوبِ رحمان کیا خوب ہے

مرحبا وہ روضۂ سرکار اللہُ غنی

ٹُوٹے ہُوئے دِلوں کے سہارے حضور ہیں