جہان رب نے بنائے حضور کی خاطر

جہان رب نے بنائے حضور کی خاطر

فلک پہ تارے سجائے حضور کی خاطر


وہ اوّلیں جو خدائے کریم کا گھر ہے

بنا ہے کعبہ رضائے حضور کی خاطر


دل ان کی یاد کی خاطر ہے دید کو آنکھیں

زبان مُنہ میں ثنائے حضور کی خاطر


جو کر دیں ایک اِشارہ ہو چاند دو ٹکڑے

پلٹ کے شمس بھی آئے حضور کی خاطر


تمام ہوگئے اقصیٰ میں انبیاء یک جا

جبینِ شوق جُھکائے حضور کی خاطر


قرار روحِ امیں کو بغیر ان کے نہیں

وہ سِدرہ چھوڑ کے آئے حضور کی خاطر


بُلندیاں اُسے دونوں جہاں میں ِملتی ہیں

جو اپنی ہستی مٹائے حضور کی خاطر


وہ مر کے بھی نہیں مرتا غلامِ سرورِ دِیں

جو جان اپنی لُٹائے حضور کی خاطر


نہ چھو سکے گی کبھی نارِ جہنم اُس کو

جو اپنے اشک بہائے حضور کی خاطر


الٰہی واسطہ تجھ کو رضا کا مرزا کو

عطا ہوں حرف ثنائے حضور کی خاطر

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

مقدر میرا چمکے گا درِ سرکار دیکھوں گا

ہر سمت یہ صدا ہے سرکار آرہے ہیں

جیسے ہیں سرکار کوئی اور نہیں

کِس کو اُن کی شان و رِفعت کا پتہ معلوم ہے

باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

ہے نظر جن عاشقوں کی کُوئے جاناں کی طرف

مصطفیٰ کا دیار کیا کہنے

سرکارِ دو عالم کا اگر در نہیں دیکھا

عرش سے بھی ماورا آقا گئے

خدا کی راہ پر سب کو چلانے آ گئے آقا