اوج پر اس گھڑی اپنا بھی مقدّر ہوتا

اوج پر اس گھڑی اپنا بھی مقدّر ہوتا

سامنے گر وہ سراپائے منّور ہوتا


آنکھوں میں اشکِ طلب کا جو سمندر ہوتا

خالی دامن میں مرادوں کا بھی گوہر ہوتا


سنگِ در چومتا روضے کو سلامی دیتا

کاش طیبہ میں کوئی لمحہ میسر ہوتا


شاخِ طوبیٰ کا قلم بخت سے مل جاتا اگر

وصفِ سرکار میں مصروف برابر ہوتا


لَمس مل جاتا اگر آپ کے قدموں کا شہا

بخت کے ساتھ مرا گھر بھی منوّر ہوتا


گنبدِ خضریٰ کا ہر روز لگاتا چکر

کاش طیبہ کا یہ احمدؔ بھی کبوتر ہوتا

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

پیغامِ حق سنانے سرکار آرہے ہیں

مرحبا صد مرحبا نورِ سراپا آگیا

لطف محشر میں خداوندِ تعالی کرنا

آگئے آگئے مصطفی آگئے

نبی ہیں کعبہء مقصود دیں کا قبلہ بھی

زمیں کے ساتوں طبق ساتوں آسماں مہکے

مرتبہ اعلی ہے کتنا احمدِ مختار کا

عشقِ نبی کی شمع جو دل میں جلا سکے

پیامِ خدا عام فرمانے والے

سب کتابوں میں قرآن سب سے الگ